شب برات/۱۵ شعبان کی شرعی حیثیت

شب برات/۱۵ شعبان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

اللہ کا فرمان ہے۔

سخت مشقت کر رہے ہونگے، تھکے جاتے ہونگے، شدید آگ میں جھلس رہے ہونگے۔ (سورۃ غاشیہ # ۳،۴)

اور جو اِس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔

(سورۃ الاسراء # ۷۲)

_ برصغیر پاک و ہند میں اس رات کو شب برات کے علاوہ شب قدر بھی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ احادیث میں اس رات کے بارے میں شب برات یا شب قدر کے الفاظ کا کہیں ذکر نہیں ۔

بعض روایات میں اس رات کا جو ذکر آیا ہے وہ نصف شعبان کی رات کے حوالے سے آیا ہے اور ویسے بھی شب قدر اورشب برات سےمراد لیلۃ القدر ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔

سورہ القدر میں فرمایا

﴿إِنّا أَنزَلنـٰهُ فى لَيلَةِ القَدرِ‌ ﴿١﴾
ترجمہ:
کہ ہم نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا۔

سورہ دخان میں ہے کہ

﴿إِنّا أَنزَلنـٰهُ فى لَيلَةٍ مُبـٰرَ‌كَةٍ… ﴿٣﴾… سورة الدخان
یعنی ہم نے اس کتاب کو برکت والی رات میں نازل کیا۔

یہ خیال درست نہیں ہے کہ سورہ دخان میں مراد شعبان کی ۱۴۔۱۵ کی درمیانی شب ہے کیونکہ معتبر تفاسیر میں اس سے مراد لیلۃ القدر ہی لی گئی ہے۔

جہاں تک اس رات کو منانے کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں اس کے مختلف طریقے رائج ہیں:

1- پہلا یہ کہ اس شام کو اچھے اور عمدہ کھانے (حلوہ وغیرہ) پکائے جاتے ہیں اور بانٹے جاتے ہیں اور پھر خود بھی بیٹھ کر اسے مزے سے کھاتےہیں ۔

2- دوسرا یہ کہ آتش بازی کی جاتی ہے اور گولہ بارود خوب استعمال کیا جاتاہے۔

3- تیسرا طریقہ کچھ لوگوں کے ہاں یہ بھی مروج ہے کہ اس رات کے استقبال کے لئے گھروں کو صاف کیا جاتا ہے اور انہیں خوب سجایا جاتاہے اور یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس دن مرے ہوئے لوگوں کی روحیں واپس آتی ہیں۔

4- چوتھا طریقہ بعض جگہوں پر یہ بھی دیکھا گیا کہ اس رات لوگ خصوصی اہتمام کے ساتھ اور بعض اوقات اجتماعی شکل میں قبرستان کی زیارت اور دعا کےلئے جاتے ہیں۔

5- پانچواں طریقہ جو زیادہ معروف ہے وہ اس دن روزہ رکھنا اور رات کو عبادت و ذکر کرنے کا طریقہ ہے۔

ان پانچوں طریقوں کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں بلکہ ان میں سے کچھ تو خرافات کے زمرے میں آتے ہیں۔

_ پہلی بات تو یہ ہے کہ نصف شعبان (15 شعبان) کی اس رات کو سرے سے اسلامی تہوار کہا ہی نہیں جاسکتا اور اسے عیدین یا حج وغیرہ کی شکل دینا ہی غلط ہے۔

_ اور پھر یہ حلوہ پکانے اور کھانے ’آتش بازی کرنے اور گھروں کو سجانے کی رسمیں تو یوں بھی کسی اسلامی تہوار کا حصہ نہیں۔ یہ وہ خود ساختہ رسومات ہیں جو یا تو بعض مذہبی پیشواؤں نے اپنے مخصوص مفادات کے لئے جاری کیں اور یا پھر مسلمانوں نے ہندوؤں سے مستعار لے لی ہیں اور آتش بازی کا کسی دن کے منانے کے ساتھ اسلام میں سرے سے تصور ہی موجود نہیں۔

_ مردوں کی روحوں کے آنے کا عقیدہ بھی باطل ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ مرنے کے بعد کسی روح کا واپس آنا نہ شعبان کی اس رات میں ممکن ہے نہ کسی دوسرے دن وہ واپس اس دنیا میں آ سکتی ہیں۔


اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

(یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ “اے میرے رب، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا” ہرگز نہیں، یہ بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے اب اِن سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔ (سورۃ مومنون # ۹۹،۱۰۰)

وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اُس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے، پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اُسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے اِس میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔ (سورۃ زمر # ۴۲)

_ اس رات قبرستان کی خصوصی زیارت کا مسئلہ بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ یوں تو کسی بھی دن یا رات قبروں کی مسنون طریقے سے زیارت جائز ہے۔ بلکہ رسول اللہﷺ نے قبروں کی زیارت کی تلقین فرمائی ہے لیکن اس رات بطور خاص اور اجتماعی شکل میں اس رات کی فضیلت کی وجہ سے جانا ثابت نہیں اس بارے میں ایک روایت ترمذی شریف کی پیش کی جاتی ہے۔مگر محدثین نے اس سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس لئے ضعیف حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔

_ اب رہا مسئلہ پانچویں طریقے کا جس پر زیادہ لوگ عمل کرتے ہیں یعنی دن کو روزہ رکھنا اور رات کو ذکر و عبادت کرنا اور اس کےفضائل بیان کرنے کے لئے مخصوص مجلسیں منعقد کرانا۔

اس بارے میں درج ذیل روایات پیش کی جاتی ہیں:

۱۔ سنن ابن ماجہ: کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ (نصف شعبان کی رات(شب براءت )کا بیان)، سند : ضعیف جداً، حدیث # 1388 .

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ اس رات اللہ تعالیٰ سورج کے غروب ہوتے ہی پہلے آسمان پر نزول فرما لیتا ہے، اور صبح صادق طلوع ہونے تک کہتا رہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا ہے، کہ میں اسے معاف کروں؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ اسے رزق دوں؟ کیا کوئی کسی بیماری یا مصیبت میں ) مبتلا ہے کہ میں اسے عافیت فرمادوں؟‘‘

۲۔ سنن ابن ماجہ: کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ (نصف شعبان کی رات(شب براءت )کا بیان)، سند : ضعیف، حدیث # 1389 .

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کو ( گھر میں ) نہ پایا۔ میں آپ کی تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ بقیع میں ہین اور آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا ہوا ہے۔ ( جب مجھے دیکھا تو) فرمایا: ’’عائشہ ! کیا تجھے یہ ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟ ‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: میں نے عرض کیا: مجھے یہ خوف تو نہیں تھا لیکن میں نے سوچا (شاید آپ اپنی کسی اور) زوجہ محترمہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں ۔تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ (لوگوں ) کو معاف فرما دیتا ہے۔‘‘

۳۔ سنن ابن ماجہ: کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ (نصف شعبان کی رات(شب براءت )کا بیان)، سند : ضعیف، حدیث # 1390 .

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت بیان کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات( اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے ، پھر مشرک اور( مسلمان بھائی سے) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے۔‘‘ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنے استاد محمد بن اسحاق کی سند سے یہ روایت بیان کی تو انہوں نے صحاک بن عبدالرحمن اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے درمیان ضحاک کے باپ کا واسطہ بیان کیا۔

یہ تمام روایات جو اس رات کی فضیلت میں بیان کی جاتی ہیں وہ سند کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں اور محدثین نے حدیث کی صحت کے لئے جو معیار مقرر کیا ہے اس پر پورا نہیں اترتیں ۔ اس لئے ان روایات کو بنیاد بنا کر اس رات کو خصوصی اسلامی تہوار کی حیثیت دینا ہرگز قرین قیاس نہیں ہے۔

صحیح حدیث:-
اس بارے میں جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ شعبان کے مہینے میں دوسرے مہینوں کے مقابلے میں زیادہ روزہ رکھتے تھے۔

جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رویت کی کہ انھوں نے کہا: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے سوا کبھی کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں،اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی (اور) مہینے میں اس سے زیادہ روزے رکھے ہوں جتنے شعبان میں رکھتے تھے۔

صحیح مسلم: کتاب: روزے کے احکام و مسائل (باب: رمضان کے علاوہ (دوسرے مہینوں میں )نبی اکرم ﷺ کے روزے ‘یہ مستحب ہے کہ کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ رہے) حدیث # ۲۷۲۱
ممکنہ سوالات:
سوال 1:-
کیا شعبان کی پندرھویں رات کو لوگوں کی تقدیریں اور
موت وحیات وغیره کے فیصلے ہوتے ہیں؟

جواب: جی نہیں ۔۔۔!!!
قرآن اور حدیث سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں۔
بلکہ اللّٰہ تعالی نے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اسکی زندگی،موت وغیرہ کا فیصلہ لکھ دیا ہے.

دلیل :

القــــــران:
” اللّٰه کے حکم کے بغیر کوئی جاندار نہیں مر سکتا،مقرر شده وقت لکھا ہوا ہے۔”
[سورة آل عمران]آیت۱۴۵

حدیث مبارکہ ہے۔
رسـول الـلـہﷺ نے ارشاد فرمایا!
اللّٰه تعالی نےزمین اور آسمان کی پیدائش سے50 ہزار سال پہلےھی سب کی تقدیریں لکھ دی تھیں.
[صحیح مسلم]حدیث: 6748

سوال 2:-
کیا شعبان کی15ویں رات کوہی نامہ_اعمال،خصوصی طور پر اللّٰه کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں اور کیا 15 شعبان کو روزہ رکھنا ثابت ہے؟

جواب : جی نہیں… !!!
ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں جس میں صرف 15 شعبان کو اعمال نامے پیش ہونے اور اس دن روزہ رکھنے کا ذکر ہو،
بلکہ ہر سوموار اور جمعرات کو اعمال نامے اللّٰہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں اور اس لیے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھنا بھی آپﷺ کی سنت ہے.

دلیل:
_رســول الـلہﷺ نے فرمایا:
“سوموار اور جمعرات کو اعمال(اللہ کی بارگاہ میں)پیش کیے جاتے ہیں،میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش کیے جائیں کہ میں روزے سے ہوں”
[جامع ترمذی]حدیث: 747

سوال3:
کیا اللہ تعالٰی 15شعبان کی رات کو دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے کہ الـلـہ ہر رات دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے۔

دلیل:
_ رســول الــلــہﷺ نے فرمایا:

“ہمارا رب بلند اور برکت والا ہر رات کے آخری حصے میں دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور پکارتا ہے: کون ہے
جو مجھ سے دعـا کرے کہ میں اس کی دعـا قبول کروں،
کـون ہے ! جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطا کروں،
کـون ہے ! جو مجھ سے بخشش طلب کرے کہ میں اسے معاف کر دوں۔”
[صحیح بخاری]حدیث: 1145

سوال 4:-
کیا خصوصی طور پر 15 شعبان کو روزہ رکھنا ثابت ہے ؟

جواب:
جی نہیں ، کسی بھی صحیح حدیث میں صرف 15 شعبان کو روزہ رکھنے کا ذکر نہیں ، بلکہ رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم ماہِ شعبان کے اکثر ایام روزے سے گزارتے تھے ۔جس کی دلیل اوپر بھی بیان کی گئی ہے ۔
دلیل :
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ مطہرہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :
“میں نے نبی صلی اللّه علیہ و سلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں اتنے (نفلی) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔”
(صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، حدیث : 1969)
سو جو شخص روزوں کی نیت رکھتا ہو تو وہ سنت کے مطابق باقی دنوں میں بھی رکھے۔

سوال 5:-
کیا 15 شعبان کی رات فوت شُدگان کی روحیں گھروں کی طرف لوٹتی ہیں؟ اور کیا اس رات خصوصی طور پر قبرستان جانا چاہیے ؟

جواب :
جی نہیں۔
جب کوئی بندہ فوت ہو جاتا ہے تو اسکی روح اس دنیا سے عالم ارواح منتقل ہو جاتی ہے اور دنیا سے اسکا رابطہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے ۔

دلیل :
اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا :
” یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب ، مجھے واپس لوٹا دے تاکہ میں اس (دنیا) میں نیک کام کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں ، (اللّه فرماۓ گا) ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ (حسرت سے) کہنے والا ہے ، اور ان سب (روحوں) کے آگے اس دن تک ایک برزخ (آڑ) ہے جس دن وہ (قبروں سے) اُٹھائے جائیں گے۔”
(سورة المومنون آیة : 99 – 100)

سوال 6:-
کیا 15 شعبان کی رات کو خصوصی طور پر قبرستان جانا چاہئے؟

جواب:
جی نہیں۔
15 شعبان کی رات کو خاص اہتمام کے ساتھ قبرستان جانےکے حوالے سے کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔
بلکہ قبرستان جانے کا اصل مقصد مـوت کو یاد کرنا ہے.

دلیل:
رســول اللہﷺ نے فرمایا:
قبروں کی زیارت کیا کرو،یہ موت یاد دلاتی ہے۔
[صحیح مسلم]کتاب الجنائزحدیث:

__آج مسلمان دین سے ناواقفیت کی وجہ سے اس مہینے میں کثرت صوم کے عمل سے تو غافل ہیں لیکن فالتو رسموں کو خوب اہتمام سے کرتے ہیں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے۔

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے
(سورة المائده # 3)

نیز فرمایا :

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
(سورة الحجرات # 11)

اور فرمایا :

در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ هے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے
(سورة الأحزاب # 211)

_ تو جو کتاب و سنت سے ہٹ کر کوئ روش اختیار کرے وہ بدعت ہے اور بدعت سے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم کا فرمان ہے۔

ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے اور ہر گمراہى آگ ميں ہے

اسے نسائى نے باب كيف الخطبۃ صلاۃ العيدين ميں روايت كيا ہے، اور مسند احمد ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے اور ابو داود ميں عرباض بن ساريہ اور ابن ماجہ ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.

جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ يہ كہتے:

” اما بعد: يقينا سب سے بہتر كلام اللہ كى كتاب اللہ ہے، اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برے امور نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے “
صحيح مسلم حديث نمبر ( 20055 )

سوچیں اگر دین میں اس کا کوئی ثبوت ہوتا تو اس کا نام عربی میں “لیلۃالبراۃ” ہوتا۔.

الله ہمیں کتاب و سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ اور شرک و بدعت سے بچاۓ۔ آمین.